دی ڈاونشی کوڈ سے شہرت پانے والے بیسٹ سیلر ناول نگار ڈین براؤن کا یہ دوسرا ناول تھا جو کہ تقریبا' بارہ سال پہلے آیا تھا۔ ویسے ڈاونشی کوڈ کے بعد مجھے سب سے اچھا ناول یہی لگا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ شاید اس کی لوکیشن سیٹنگ اور اس کی مین تھیم تھی۔
اس میں پلاٹ کچھ یوں ہے کہ امریکی خلائی تحقیق کا ادارہ ناسا گرین لینڈ میں قطبِ شمالی کے قریب کچھ اس طرح کا انتظام کرتا ہے کہ پوری دنیا کو یہ ثبوت دکھایا جا سکے کہ ناسا کے سائنسدانوں نے ایکسڑا ٹیریٹوریل لائف دریافت کر لی ہے۔
اور اس ثبوت کو ایسا پرفیکٹ طریقے سے بہت سے ماہر سائنسدانوں کو دکھایا گیا کہ انہوں نے بھی تحقیق کر کے اس کی تصدیق کر دی۔
لیکن پھر ایک چھوٹی سی بات سے کچھ ماہرین کو شک پڑا کہ اس پلاٹ میں کچھ جھول ہے اور پھر سراغ در سراغ لگتے گئے جس سے پتا چلا کہ ناسا کو چونکہ بے تحاشا فنڈز کی ضرورت رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ میڈیا اور پبلک میں زیرِ عتاب ہی ہوتا تھا تو انہوں نے ایک بریک تھرو دکھانے کے چکر میں یہ ناٹک کر ڈالا۔
ناول میں ابتدا میں تو بے تحاشا تھرل ہے، لیکن ایک ہی کمزوری ہے کہ مصنف نے اصل تھرل کافی جلدی ختم کر دیا جس کے بعد بس کہانی کی جزئیات باقی رہ گئیں۔ یعنی پانچ سو سے اوپر صفحات کے ناول میں تقریبا" ایک سو کے قریب آخری صفحات پڑھتے ہوئے آپ اس تھرل سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے جو کہ اس سے پہلے تھا۔
اس ناول میں مصنف نے جس طرح سے جیالوجی، زوالوجی اور گلیشیالوجی وغیرہ کے بارے میں گاہے بگاہے بتایا ہے، اس پہ مصنف کی تحقیق کی داد دینی پرتی ہے۔
اگر ایک اچھا تھرلنگ ناول پڑھنا ہو تو یہ ایک ریکمنڈڈ آپشن ہے۔
اس میں پلاٹ کچھ یوں ہے کہ امریکی خلائی تحقیق کا ادارہ ناسا گرین لینڈ میں قطبِ شمالی کے قریب کچھ اس طرح کا انتظام کرتا ہے کہ پوری دنیا کو یہ ثبوت دکھایا جا سکے کہ ناسا کے سائنسدانوں نے ایکسڑا ٹیریٹوریل لائف دریافت کر لی ہے۔
اور اس ثبوت کو ایسا پرفیکٹ طریقے سے بہت سے ماہر سائنسدانوں کو دکھایا گیا کہ انہوں نے بھی تحقیق کر کے اس کی تصدیق کر دی۔
لیکن پھر ایک چھوٹی سی بات سے کچھ ماہرین کو شک پڑا کہ اس پلاٹ میں کچھ جھول ہے اور پھر سراغ در سراغ لگتے گئے جس سے پتا چلا کہ ناسا کو چونکہ بے تحاشا فنڈز کی ضرورت رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ میڈیا اور پبلک میں زیرِ عتاب ہی ہوتا تھا تو انہوں نے ایک بریک تھرو دکھانے کے چکر میں یہ ناٹک کر ڈالا۔
ناول میں ابتدا میں تو بے تحاشا تھرل ہے، لیکن ایک ہی کمزوری ہے کہ مصنف نے اصل تھرل کافی جلدی ختم کر دیا جس کے بعد بس کہانی کی جزئیات باقی رہ گئیں۔ یعنی پانچ سو سے اوپر صفحات کے ناول میں تقریبا" ایک سو کے قریب آخری صفحات پڑھتے ہوئے آپ اس تھرل سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے جو کہ اس سے پہلے تھا۔
اس ناول میں مصنف نے جس طرح سے جیالوجی، زوالوجی اور گلیشیالوجی وغیرہ کے بارے میں گاہے بگاہے بتایا ہے، اس پہ مصنف کی تحقیق کی داد دینی پرتی ہے۔
اگر ایک اچھا تھرلنگ ناول پڑھنا ہو تو یہ ایک ریکمنڈڈ آپشن ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر