پاکستانی ناول نگار محسن حامد کا پہلا ناول "موتھ سموک" یعنی
Moth Smoke
شہرِ لاہور کے چند کرداروں کی کہانی، جس میں کرداروں کے نام شاہ جہاں اور اورنگزیب کے دور کے مغل خاندان کے کچھ ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ یعنی دارا، ممتاز، مراد، خرم وغیرہ۔
ناول کے پلاٹ میں مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح اس میں ہر شخصیت کا اپنا کردار گناہ آلود ہے اور اس کو اپنے علاوہ باقی سب میں برائی نظر آتی ہے۔
یہ ناول 1998 میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے پہلے اور بعد کے معاشی حالات وغیرہ احاطہ کرتے ہوئے کہانی کے تانے بانے بنتا ہے۔ ناول میں لاہور کے گلی کوچوں کا بھی ذکر ہے اور ڈرگ ٹریفکنگ، کرپشن، بیوروکریٹک رہن سہن سے لے کر ہمارے معاشرے میں موجود دیگر بے شمار پہلوؤں کا بھی ذکر ملتا ہے۔
ایک مزے کی چیز اس میں ایک پروفیسر کے کردار کی جانب سے سوسائٹی کی دو حصوں میں تقسیم کا فلسفہ تھا۔ یعنی کُولڈ اور اَن کُولڈ۔ پروفیسر صاحب اس میں بتاتے ہیں کہ کس طرح سوسائٹی کے بالائی طبقے نے اپنے آپ کو باقی دنیا سے آئسولیٹ کر رکھا ہے۔ ان کے گھر، دفتر، گاڑیاں، شاپنگ پلیسیز وغیرہ سب ایئر کنڈیشنڈ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے یہ باقی سب معاشرے کی "آلائشوں" سے یکسر محقوظ ہیں۔ ان کو سوسائٹی کا کولڈ طبقہ کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ باقی سوسائٹی ان کولڈ میں شمار ہو گی۔
ویسے مجھے ذاتی طور پہ محسن حامد کا دوسرا ناول یعنی "دی ریلکٹینٹ فنڈامینٹلسٹ" زیادہ اچھا لگا تھا۔ تاہم موتھ سموک بھی پڑھنے کی چیز ہے کہ پاکستانی مصنفین کے لکھے عالمی معیار کے انگلش ناولز کم ہی ملتے ہیں۔
Moth Smoke
شہرِ لاہور کے چند کرداروں کی کہانی، جس میں کرداروں کے نام شاہ جہاں اور اورنگزیب کے دور کے مغل خاندان کے کچھ ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ یعنی دارا، ممتاز، مراد، خرم وغیرہ۔
ناول کے پلاٹ میں مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح اس میں ہر شخصیت کا اپنا کردار گناہ آلود ہے اور اس کو اپنے علاوہ باقی سب میں برائی نظر آتی ہے۔
یہ ناول 1998 میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے پہلے اور بعد کے معاشی حالات وغیرہ احاطہ کرتے ہوئے کہانی کے تانے بانے بنتا ہے۔ ناول میں لاہور کے گلی کوچوں کا بھی ذکر ہے اور ڈرگ ٹریفکنگ، کرپشن، بیوروکریٹک رہن سہن سے لے کر ہمارے معاشرے میں موجود دیگر بے شمار پہلوؤں کا بھی ذکر ملتا ہے۔
ایک مزے کی چیز اس میں ایک پروفیسر کے کردار کی جانب سے سوسائٹی کی دو حصوں میں تقسیم کا فلسفہ تھا۔ یعنی کُولڈ اور اَن کُولڈ۔ پروفیسر صاحب اس میں بتاتے ہیں کہ کس طرح سوسائٹی کے بالائی طبقے نے اپنے آپ کو باقی دنیا سے آئسولیٹ کر رکھا ہے۔ ان کے گھر، دفتر، گاڑیاں، شاپنگ پلیسیز وغیرہ سب ایئر کنڈیشنڈ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے یہ باقی سب معاشرے کی "آلائشوں" سے یکسر محقوظ ہیں۔ ان کو سوسائٹی کا کولڈ طبقہ کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ باقی سوسائٹی ان کولڈ میں شمار ہو گی۔
ویسے مجھے ذاتی طور پہ محسن حامد کا دوسرا ناول یعنی "دی ریلکٹینٹ فنڈامینٹلسٹ" زیادہ اچھا لگا تھا۔ تاہم موتھ سموک بھی پڑھنے کی چیز ہے کہ پاکستانی مصنفین کے لکھے عالمی معیار کے انگلش ناولز کم ہی ملتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر