منگل، 9 اکتوبر، 2012

لوحِ مزار دیکھ کے

لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

بد نام ہو کے عشق میں ہم سُرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا

ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش


دامانِ حسنِ یار بہت تنگ رہ گیا

سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اُڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا

کتنے ہی انقلاب شکن در شکن ملے
آج اپنی شکل دیکھ کے میں دنگ رہ گیا

کُل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی
انسان مثالِ دستِ تہہِ سنگ رہ گیا

اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالئے
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا

ہم ان کی بزم میں یوں چپ ہوئے ظہیر
جس طرح گھُٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا
(ظہیر کاشمیری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر