ہفتہ، 13 اکتوبر، 2012

ہوس جاہ کی

 مختلف لوگوں سے اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ جیسے

 یار زرداری صاحب نے اتنا مال سمیٹ لیا ہے کہ اس کی نسلیں ہزاروں سال تک کھا سکتی ہیں۔ اب سکون کیوں نہیں کرتا۔ بیرون ملک جا کے چین سے کیوں نہیں جیتا۔

 مشرف صاحب اربوں روپیہ ڈکار گئے ہیں۔ اب بھی ان کو بیرونِ ملک چین کیوں نہیں آ رہا۔ کیوں پاکستان واپسی کے اعلان کرتا پھرتا ہے۔

اور ایک صاحب نے اس سب صورتحال کو ایک دلچسپ اینگل سے بیان کیا

کہ یار سب سے مہنگا جوس انار کا ہوتا ہے اور اس کا بھی مہنگے سے مہنگا پیک اڑھائی تین سو کا مل جاتا ہے۔ اس سے زیادہ مال و زر اکٹھا کر کے کسی نے کہاں لے جانا ہے۔

نہیں دوستو! یہ معاملہ اڑھائی تین سو روپے کے انار کے جوس سے کہیں بڑھ کے ہے۔

امام غزالی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب احیاءالعلوم میں یہ بات بہت سی صدیاں پہلے کہی تھی لیکن اس کا ایک ایک حرف اب بھی ویسا ہی سچ ہے جیسا کہ اس وقت ہو گا۔ فرماتے ہیں کہ
جیسی ہوس سونے چاندی، مال و دولت اور درہم و دینار کی ہے، ویسی ہی ہوس جاہ کی ہے۔ جہاں مال و دولت کی طلب کا مقصود دنیاوی خواہشات کی تسخیر ہے تو وہاں جاہ کی خواہش کا مقصود دلوں کی تسخیر ہے۔

مینجمنٹ کے مشہور ماہر ماسلوو نے بھی انسانی خواہشات کی جو درجہ بندی بیان کی ہے، اس میں سب سے اوپر کے درجے میں حکومت و اختیار یعنی جاہ کی خواہش ہی ہے۔

جاہ طلبی کی خواہش انسانی سرشت میں اس حد تک شامل ہے کہ بسا اوقات یہ ہر چیز پہ مقدم ہو جاتی ہے۔ 
مشہور فلم "ٹرائے" کا ایک سین یاد آ رہا ہے جس میں ایکلیز کو ٹرائے کی جنگ میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اپنی ماں سے مشورہ کرتا ہے۔ اس کی ماں کہتی ہے کہ اگر تم جنگ پہ نہ گئے تو تمہاری لمبی عمر ہو گی، فیملی ہو گی، بچے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مرنے کے بعد تمہیں کوئی یاد نہیں رکھے گا۔ دوسری جانب اگر تم جنگ میں گئے تو تم زندہ واپس نہیں آنے والے، لیکن تمہارا نام تاقیامت ایک عظیم جنگ باز کے طور پہ تاریخ میں روشن رہے گا۔ فیصلہ تم نے کرنا ہے کہ جنگ میں جانا ہے یا نہیں۔
ایکلیز کا فوری جواب تھا کہ میں جنگ میں جاؤں گا۔

دلوں کو تسخیر کرنے کی، لاکھوں دلوں میں بسنے کی ہی خواہش ہے جو انسان کو کسی طور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔

یہی معاملہ اس وقت مشرف کے ساتھ بھی ہے۔ اربوں روپے کا مال بنا کے بھی اس کی جاہ طلبی کی ہوس کو چین نہیں آ رہا ہو گا۔ اس کا بھی دل ہو گا کہ جناح ٹرمینل پہ اتروں تو بینظیر کی مانند لاکھوں لوگوں کا جلوس استقبال کے لئے موجود ہو۔ بڑے سے بڑے جلسۂ عام میں فلک شگاف نعرے لگاتے عوام کے سامنے
الطاف حسین کی طرح ہونٹوں پہ انگلی رکھوں تو پن ڈراپ سائلنس ہو جائے۔
معاملہ صرف روٹی پانی، یا اچھے روٹی پانی کا نہیں ہے۔ یہاں معاملہ اٹھارہ بیس کروڑ لوگوں پہ حکمرانی کی خواہش کا ہے۔ ان کے دلوں پہ راج کرنے کا ہے۔
یہی معاملہ زرداریوں، شریفوں، گیلانیوں وغیرہ کا بھی ہے۔ ان کو اپنی اگلی نسلیں بھی پاکستان پہ راج کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ جتنا مال سمیٹ لیا ہے، اس پہ تکیہ کرتے ہوئے ملک سے باہر جا بسیں۔

ملا کی دین فروشی میں بھی فقط جاہ کی طلب ہے اور دانشور کی دانش افروزی میں بھی جاہ کی ہوس ہے۔
فنکار کا فن ہو یا کرکٹر کا کھیل، شاعر کی لفاظی ہو یا مفکر کی فکر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلوب و مقصود ایک ہی ہے اور وہ ہے جاہ طلبی، دلوں پہ راج کی تمنا۔
معاملہ صرف انار کے جوس تک محیط نہیں ہے دوستو۔

5 تبصرے:

  1. یعنی کہ ہم بھی،،،،اوپس

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اچھی باتیں کہی ہیں مگرمیرا ایک سوال ہے کہ پھر یہ لوگ نام کمانا چاہتے ہیں تو خود پیسے کیوں لوٹ رہے ہیں یہ ملک اور قوم کے لئے ایسے کارنامہ کیوں نہیں کرتے جس سے ان کا نام زندہ ہو یہ اپنے ملک میں امان ،خوش حالی ،فایدہ مند احکام اور تعلیم ،صنعت، کاشت، رشوت خوری وغیرہ وغیرہ کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے اچھے لوگوں کا نام بھی تاریخ میں اچھائی سے یاد کیا جاتا ہے اور برے کا برائی سے اتنی بات بھی کیا ان کے سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔۔ شکریہ اس تحریر کے لئے

    جواب دیںحذف کریں
  3. کوثر آپی جی! آپ کی بات تو بہت اچھی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس جانب اگر ہمارے اربابِ اختیار کا دماغ جانے لگے تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہ رہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جو مال حرام میں ہے وہ حلال میں کہاں ناجانے کتنے تو امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. برائے کوثر بیگ: غالب نے کہا تھا : بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہوگا؟ اور مال کے بارے میں تو کسی کو شک ہی نہیں ہونا چاہیئے کہ "باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ" امید ہے آپ کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا آپ کو۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر