۔ ۔ ۔ ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں قرآن پاک کی تدوین ہوئی۔ تاریخ دانوں کی تحقیق کے مطابق اس کی حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی تدوین کا عمل تو اس سے پہلے بھی شروع ہو چکا تھا لیکن حضرت عثمان کے دور میں قرآن پاک کی تدوین شدہ کاپیوں پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا اور ایک متفقہ کاپی کی تدوین کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن پاک کے چار (ایک روایت کے مطابق سات) نسخے تیار کرائے
اور حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کر کے مسجد نبوی میں بآوازِ بلند پڑھا جائے تاکہ سب سن لیں اور غلطی کا کوئی امکان یا شبہ نہ رہے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے اسلامی سلطنت جو کہ یورپ، وسطی ایشیا اور افریقہ تک پھیل چکی تھی، اس کے بڑے بڑے صوبوں میں یہ نسخے بھیجے کہ آئندہ صرف انہی سرکاری نسخوں سے مزید نقول تیار کی جائیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عثمان نے جو چار یا سات نسخے تیار کرائے تھے، ان میں سے کچھ اب تک محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نسخہ سابقہ روسی اور اب آزاد مسلم ریاست ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ہے۔ وہاں کیسے پہنچا، اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ یہ نسخہ پہلے دمشق میں پایا جاتا تھا جو کہ بنو امیہ کا دارالحکومت تھا۔ جب امیر تیمور نے اس شہر کو فتح کیا تو وہاں کے مالِ غنیمت میں سب سے قیمتی چیز کے طور پر اس نسخے کو بھی ساتھ لیا اور اپنے ساتھ اپنے دارالحکومت سمرقند لے آیا اور وہاں اس کو محفوظ رکھا۔ انیسویں صدی میں روسیوں نے اس شہر کو فتح کر لیا۔ شہر فتح کرنے کے بعد روسی فوج کے کمانڈر نے اس نسخے کو جو کہ وہاں بہت مشہور تھا، اس کو روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ منتقل کر دیا۔ یہی سینٹ پیٹرزبرگ روسی انقلاب کے بعد لینن گراڈ کہلاتا تھا اور اب پھر سابقہ نام اختیار کر چکا ہے۔ روسی مؤرخ یہ کہتے ہیں کہ یہ نسخہ ہم نے وہاں سے چرایا یا چھینا نہیں بلکہ سمرقند کے حاکم نے خود یہ نسخہ کافی کم قیمت میں ہمارے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ بہرحال پہلی جنگِ عظیم کے آخر تک وہ نسخہ وہیں پہ رہا۔ اس کے بعد روس میں کمیونسٹ انقلاب آ گیا اور روس میں زار کی حکومت ختم ہو گئی۔ اس وقت بہت سے روسی باشندے جو کہ کمیونسٹ حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہتے تھے، وہ روس چھوڑ کر دنیا میں تتر بتر ہو گئے۔ انہی میں سے ایک انقلاب سے پہلے کی روسی فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار مسلمان افسر جنرل علی اکبر بھی تھے جو کہ بعد میں پیرس چلے گئے۔ جنرل علی اکبر روسی انقلاب کے وقت سینٹ پیٹرز برگ میں ہی تعینات تھے اور جب روسی بادشاہ زار کو قتل کر کے کمیونسٹ روس کی حکومت پر قبضہ کرنے کے مرحلے میں تھے تو جنرل علی اکبر نے ایک کمانڈو دستہ بھیجا کہ جا کر سینٹ پیٹرزبرگ کے شاہی محل پر قبضہ کر لو اور وہاں کے شاہی کتب خانے سے وہ نسخہ لے آؤ۔ وہ دستہ وہاں جا کر نسخہ لے آیا۔ اب جنرل علی اکبر نے ریلوے اسٹیشن جا کر وہاں کے سٹیشن ماسٹر سے کہا کہ مجھے ایک انجن درکار ہے۔ اس انجن میں قرآن کے اس نسخے کو رکھوایا اور اپنے آدمیوں کی نگرانی میں انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ جس قدر تیزی سے جا سکتے ہو اس انجن کو ترکستان لے جاؤ۔ چنانچہ یہ نسخہ اس طرح ترکستان پہنچ گیا۔ اس ساری کاروائی کی خبر کمیونسٹ فوجی کمانڈروں کو چند گھنٹوں بعد ملی اور انہوں نے اس کے تعاقب میں دوسرے انجن پر فوجی روانہ کئے لیکن وہ انجن ان کی پہنچ سے باہر جا چکا تھا۔ اس طرح یہ نسخہ تاشقند پہنچ گیا۔ کمیونسٹ دور ہی میں تاشقند پر بھی قبضہ کر لیا گیا، لیکن اس نسخے کو وہاں سے کہیں اور منتقل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، چنانچہ وہ اب تک وہیں پہ محفوظ ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کے نسخوں میں سے ایک استنبول کے ایک میوزیم میں بھی ہے۔ اس میں سورہ بقرہ کی آیت فسیکفیکھم اللہ پر سرخ دھبے بھی پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت عثمان کے خون کے دھبے ہیں۔ کیونکہ جس وقت وہ اس نسخے سے تلاوت کر رہے تھے تو انہیں شہید کر دیا گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ انہی نسخوں میں سے ایک نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں بھی ہے۔ اس پر سرکاری مہریں ہیں اور لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نسخہ قرآن ہے۔
مأخذ: خطباتِ بہاولپور از ڈاکٹر حمیداللہ
اور حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کر کے مسجد نبوی میں بآوازِ بلند پڑھا جائے تاکہ سب سن لیں اور غلطی کا کوئی امکان یا شبہ نہ رہے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے اسلامی سلطنت جو کہ یورپ، وسطی ایشیا اور افریقہ تک پھیل چکی تھی، اس کے بڑے بڑے صوبوں میں یہ نسخے بھیجے کہ آئندہ صرف انہی سرکاری نسخوں سے مزید نقول تیار کی جائیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عثمان نے جو چار یا سات نسخے تیار کرائے تھے، ان میں سے کچھ اب تک محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نسخہ سابقہ روسی اور اب آزاد مسلم ریاست ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ہے۔ وہاں کیسے پہنچا، اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ یہ نسخہ پہلے دمشق میں پایا جاتا تھا جو کہ بنو امیہ کا دارالحکومت تھا۔ جب امیر تیمور نے اس شہر کو فتح کیا تو وہاں کے مالِ غنیمت میں سب سے قیمتی چیز کے طور پر اس نسخے کو بھی ساتھ لیا اور اپنے ساتھ اپنے دارالحکومت سمرقند لے آیا اور وہاں اس کو محفوظ رکھا۔ انیسویں صدی میں روسیوں نے اس شہر کو فتح کر لیا۔ شہر فتح کرنے کے بعد روسی فوج کے کمانڈر نے اس نسخے کو جو کہ وہاں بہت مشہور تھا، اس کو روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ منتقل کر دیا۔ یہی سینٹ پیٹرزبرگ روسی انقلاب کے بعد لینن گراڈ کہلاتا تھا اور اب پھر سابقہ نام اختیار کر چکا ہے۔ روسی مؤرخ یہ کہتے ہیں کہ یہ نسخہ ہم نے وہاں سے چرایا یا چھینا نہیں بلکہ سمرقند کے حاکم نے خود یہ نسخہ کافی کم قیمت میں ہمارے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ بہرحال پہلی جنگِ عظیم کے آخر تک وہ نسخہ وہیں پہ رہا۔ اس کے بعد روس میں کمیونسٹ انقلاب آ گیا اور روس میں زار کی حکومت ختم ہو گئی۔ اس وقت بہت سے روسی باشندے جو کہ کمیونسٹ حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہتے تھے، وہ روس چھوڑ کر دنیا میں تتر بتر ہو گئے۔ انہی میں سے ایک انقلاب سے پہلے کی روسی فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار مسلمان افسر جنرل علی اکبر بھی تھے جو کہ بعد میں پیرس چلے گئے۔ جنرل علی اکبر روسی انقلاب کے وقت سینٹ پیٹرز برگ میں ہی تعینات تھے اور جب روسی بادشاہ زار کو قتل کر کے کمیونسٹ روس کی حکومت پر قبضہ کرنے کے مرحلے میں تھے تو جنرل علی اکبر نے ایک کمانڈو دستہ بھیجا کہ جا کر سینٹ پیٹرزبرگ کے شاہی محل پر قبضہ کر لو اور وہاں کے شاہی کتب خانے سے وہ نسخہ لے آؤ۔ وہ دستہ وہاں جا کر نسخہ لے آیا۔ اب جنرل علی اکبر نے ریلوے اسٹیشن جا کر وہاں کے سٹیشن ماسٹر سے کہا کہ مجھے ایک انجن درکار ہے۔ اس انجن میں قرآن کے اس نسخے کو رکھوایا اور اپنے آدمیوں کی نگرانی میں انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ جس قدر تیزی سے جا سکتے ہو اس انجن کو ترکستان لے جاؤ۔ چنانچہ یہ نسخہ اس طرح ترکستان پہنچ گیا۔ اس ساری کاروائی کی خبر کمیونسٹ فوجی کمانڈروں کو چند گھنٹوں بعد ملی اور انہوں نے اس کے تعاقب میں دوسرے انجن پر فوجی روانہ کئے لیکن وہ انجن ان کی پہنچ سے باہر جا چکا تھا۔ اس طرح یہ نسخہ تاشقند پہنچ گیا۔ کمیونسٹ دور ہی میں تاشقند پر بھی قبضہ کر لیا گیا، لیکن اس نسخے کو وہاں سے کہیں اور منتقل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، چنانچہ وہ اب تک وہیں پہ محفوظ ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کے نسخوں میں سے ایک استنبول کے ایک میوزیم میں بھی ہے۔ اس میں سورہ بقرہ کی آیت فسیکفیکھم اللہ پر سرخ دھبے بھی پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت عثمان کے خون کے دھبے ہیں۔ کیونکہ جس وقت وہ اس نسخے سے تلاوت کر رہے تھے تو انہیں شہید کر دیا گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ انہی نسخوں میں سے ایک نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں بھی ہے۔ اس پر سرکاری مہریں ہیں اور لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نسخہ قرآن ہے۔
مأخذ: خطباتِ بہاولپور از ڈاکٹر حمیداللہ
مفید معلومات فراہم کرنے کے لئے بے حد شکریہ
جواب دیںحذف کریںیہاں میں ایک بات کی وضاحت چاہوں گا۔ مضمون کے پہلے جملے میں لفظ تدوین سا آپ کی کیا مراد ہے؟ یہاں تدوین کا مطلب اشاعت لیا جائے یا تغیر و تبدل(انگلش = ایڈیٹ) ؟
ان معلومات کا ماخذ کیا ہے ، ساتھ میں حولہ دیا گیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔
بہت شکریہ رضوان بھائی۔
جواب دیںحذف کریںتدوین سے مراد کمپائلیشن ہے۔ یعنی تمام نازل کردہ آیات کو جامع شکل میں اکٹھا کرنا۔
مضمون کا مأخز بھی مضمون کے اختتام پہ شامل کر دیا ہے۔ توجہ دلانے کا بہت شکریہ
وضاحت کے لئے بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںامید کرتا ہوں کہ مزید کچھ آپ سے سیکھنے کو ملے گا۔
بہت بہترین معلومات کے لئے مشکور ہوں۔۔۔
جواب دیںحذف کریںپیر ذوالفقار نقشبندی صاحب کے سفر نامہ " لاہور سے تاشقند تا بخارہ " میں اس نسخہ عثمانی کے بارے میں پڑھنے کا موقع ملا تھا۔۔ اب ایک لمبی مدت کے بعد آپ نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ ۔۔۔
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
ایک عاجزانہ درخواست ہے کہ کمینٹ کرنے کے بعد جو ویریفیکیشن کوڈ رہتا ہے ۔۔۔ اگر وہ نکال دیں تو کمینٹ کرنے والوں کو بہت سہولت ہوگی۔۔۔
جواب دیںحذف کریںوالسلام
توجہ دلانے کا شکریہ نور بھائی۔
جواب دیںحذف کریںکمنٹس میں سے ویریفیکیشن کوڈ نکال دیا ہے۔
بہت شکریہ
بھائی جان اس ترک میوزم کا نام بتا سکیں تو مہربانی ہوگی جہاں وہ نسخہ موجود ہے
جواب دیںحذف کریںعلی بھائی! قرآن پاک کا مذکورہ نسخہ استنبول کے مشہورِ زمانہ "توپ کاپی سرائے میوزیم" میں ہے۔ اسی کو توپ کاپی پیلس میوزیم بھی کہا جاتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںChange the background colour coz cannot readable in iPhone
جواب دیںحذف کریںبہت بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںاللہ آپ کو خوش رکھے ۔ ۔ ۔
بہت ہی مفید معلومات ہیں بہت شکریہ۔۔اللہ آپکو جزائے خیر سے نوازے آمین
جواب دیںحذف کریں