اتوار، 23 دسمبر، 2012

اِک نئی سونامی کی آمد آمد

روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والو! تبدیلی کا یہی وقت ہے اور یہ وقت آج آن ہی پہنچا ہے۔

اہلِ وطن کے کونے کونے میں رہنے والوں کو یہ مژدۂ جاں فزا سنا دو کہ ان کی سن لی گئی ہے، ان کے برے دن گنے جا چکے۔ عہدِ خزاں قصۂ پارینہ ہونے کو ہے کہ اب تو ہر سو بہار آنے کو ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو! اک نئی سونامی تمہاری دہلیز پہ دستک دینے کے لئے تشریف لا چکی ہے۔
اور ایسے شان سے تشریف لا چکی ہے کہ ٹی وی پہ زونگ اور موبی لنک جاز کے اشتہارات کم اور نئی سونامی کے اشتہارات کا دورانیہ زیادہ ہے۔

مزید تفصیل میں جائیں تو یہ بھی پتا چلتا ہے کہ نئی سونامی ایک فرنگی ملک کی شہریت کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ اگرچہ حلف دوسرے ملک کی وفاداری کا اٹھا لیا ہے، لیکن ملک و قوم کے لئے ایسی تڑپ پہ چشمِ فلک بھی حیران ہے کہ کروڑوں روپے کی میڈیا کیمپین صرف اس تڑپ کی جلوہ نمائی و پردہ کشائی سے قبل ہی چلے جا رہی ہے۔

حافظ شیرازی نے کبھی کہا تھا کہ "مجنوں کا دور گزر گیا، اب ہمارا دور ہے"۔ شیخ الاسلام صاحب بھی کچھ ایسا ہی نعرہ لگانے یہاں آ رہے ہیں کہ سابقہ سونامیوں کو بھول جاؤ، اصلی تے وڈی سونامی تو اب برپا ہونے جا رہی ہے۔ اور اس دھج سے آ رہی ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

چچ نامہ کی رو سے دیکھا جائے تو اہلِ وطن کی دلی و دماغی حالات و کیفیات کے مدِ نظر اس بار بھی سونامی بے تحاشا رش  لے گی اور سڑکوں، محلوں، گلیوں میں تبدیلی کا نشان بن کے ابھرے گی۔ اس کے بعد خوشہ نشینانِ دہر کی قطاریں اس میخانے سے کوزہ گری کی رسم انجام دیتی پائی جائیں گی۔ تاوقتیکہ اس سونامی کا سورج بھی ڈھلنا شروع ہو جائے۔

پھر اہلِ نظر بوتل میں سے اک نیا جن نکالیں گے اور جلد ہی وطنِ عزیز میں ایک نئی سونامی ایک نئی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آن کھڑی ہو گی۔

8 تبصرے:

  1. ایک سونامی دیکھ چکے دوسرا بھی دیکھ لیں گے ۔ سنا ہے کہ اس سونامی کو اول سونامی اور لندن والے بھائی کی اشیرباد بھی حاصل ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. درست فرمایا افتخار بھائی۔
    ہو سکتا ہے کہ یہ سب سونامیاں اور لندن والے بھائی مل بیٹھ کے سانجھے داری چلا لیں۔
    نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. رضوان خاندسمبر 23, 2012

    یہ وہی ہے نا۔۔۔۔۔ جب ڈاکٹر طاہر القادری تھا تو سندھی ٹوپی پہنتا تھا لیکن پھر سوچا کہ سندھی ٹوپی پہن کر تو آپ صرف سندھیوں کو ہی ٹوپی پہناسکتے ہیں لہذا ٹوپی بھی بدلی نام بھی شیخ الاسلام ہوگیا (جیسے ایم کیو ایم مہاجر قومی مومنٹ سے متحدہ قومی مومنٹ ہوگئی)
    اور اب یہ غیر ملکی باشندہ پاکستان کے عقل سے پیدل لوگوں کو ٹوپی پہنانے آیا ہے۔وفاداری کی قسم کنیڈا کی ریاست کی کھائی ہے بات پاکستانی ریاست کی کررہا ہے۔
    ایسٹ انڈیا کمپنی قصہ پارینہ بن چکی لیکن آج بھی لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے رہنما اصولوں پر چلتے ہوے پاکستانی عوام کو ڈھور ڈنگر کی طرح استعمال کررہے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جی رضوان بھائی! یہ وہی صاحب ہیں۔
    مختلف طرح کے ڈرامے سٹیج کرتے رہے ہیں۔
    بدقسمتی سے یہاں کسی تبدیلی کے انتظار میں سٹیج اس قدر سیٹ ہے کہ اداکارہ نرگس بھی تبدیلی کا نعرہ لگائے تو احباب فیس بک اور سوشل میڈیا پہ اس کے نعرے لگاتے پھریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. جہاں اور رنگ رنگ کی ڈفلیاں بج رہی ہیں ایک یہ بھی سہی

    جواب دیںحذف کریں
  6. بالکل جی، ریاض بھائی۔ ان کو بھی تو ڈفلی بجانے کا حق ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. رضوان خاندسمبر 24, 2012

    طاہر القادری صاحب کا تضاد دیکھئے
    https://www.facebook.com/photo.php?v=400249013376242

    جواب دیںحذف کریں
  8. رضوان خاندسمبر 24, 2012

    ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ”پاکستان کو بچانےاور ملک سے فرسودہ جاگیردارانہ نظا م کے خاتمے کے لیے ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک کے پروگرام میں کوئی فرق نہیں“
    اگر ان کے اور ایم کیو ایم کے پروگرام میں کوئی فرق نہیں تو پھر تو مقصد بھی ایک ہی ہوا ناعوام کو بےوقوف بنانا۔ ایم کیو ایم جاگیردوروں کے پہلو بہ پہلو اقتدار میں ہمیشہ شریک رہی اور جگیردارانہ نظام کے خلاف راگ الاپتی رہی ہے کچھ یہی حال علامہ و ڈاکٹر کا بھی لگتا ہے۔مغرب کی گود میں بیٹھے ہوئے الطاف اور قادری کا بیک آواز غزل گانا خاصا معنی خیز ہے۔ عرصہ دراز سے کینڈا میں مقیم ایک عابد زاہد پارسا کو اسی وقت پاکستان کا خیال آنا جبکہ الیکشن سر پر ہیں کئی شکوک و شبہات کو جنم لیتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر