میں عمران خان کی گزشتہ بارہ تیرہ سال کی سیاست کا بہت بڑا ناقد رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ میرے خیال میں اچھے لیڈر کا اصل پتا اس کے فیصلوں اور فیصلوں کی ٹائمنگ سے چلتا ہے۔ کیونکہ یہی وہ پہلو ہے جس سے اس کی سیاسی بصارت اور دور اندیشی کا ادراک ہوتا ہے۔ اور افسوس ناک بات یہ کہ یہی وہ پہلو ہے، جس میں عمران خان نے زیادہ تر مایوس ہی کیا ہے۔ مثلاً جب مشرف نے اقتدار پہ قبضہ کیا تو عمران خان ان معدودے چند میں سے تھا
، جنہوں نے اس کو ویلکم کہا اور اس کی بارات کے آگے بھنگڑے ڈالے جبکہ آج تک اس فعل پہ معافیاں مانگتا پھرتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ الیکشن کا بائیکاٹ یوں کیا جیسے اس نے الیکشن میں حصہ نہ لیا تو ملک کا نوے فیصد طبقہ الیکشن سے باہر ہو جائے گا، جبکہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی پارٹی کی الیکشن ٹریننگ کا موقع بھی گنوا دیا اور اپنی پارٹی کے حلقے کے لیول کے سیاسی ڈھانچے کی بنیاد ہی نہ رکھی جا سکی۔
، جنہوں نے اس کو ویلکم کہا اور اس کی بارات کے آگے بھنگڑے ڈالے جبکہ آج تک اس فعل پہ معافیاں مانگتا پھرتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ الیکشن کا بائیکاٹ یوں کیا جیسے اس نے الیکشن میں حصہ نہ لیا تو ملک کا نوے فیصد طبقہ الیکشن سے باہر ہو جائے گا، جبکہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی پارٹی کی الیکشن ٹریننگ کا موقع بھی گنوا دیا اور اپنی پارٹی کے حلقے کے لیول کے سیاسی ڈھانچے کی بنیاد ہی نہ رکھی جا سکی۔
طاہرالقادری کے امپورٹڈ لانگ مارچ کے شمولیت کے حوالے سے بھی عمران خان کی سوچ ایم کیو ایم کی مانند ڈانواں ڈول ہی لگ رہی تھی۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے عوام سے ووٹ نہیں مانگنا ہوتا، بلکہ عوام سے ووٹ لے لیا جاتا ہے۔ جبکہ عمران خان کو ووٹ لینے کے لئے سخت مقابلہ کرنا پڑے گا۔
کل کچھ آثار نمودار ہونا شروع ہوئے تھے کہ نجم سیٹھی کی پلان بی والی پیشگوئی کے مطابق عمران خان لانچنگ پیڈ پہ تیار کھڑے ہیں، اور کوئی وقت آتا ہے کہ سونامی کال دے دی جائے۔
لیکن آج آخرکار عمران خان نے بروقت وہ فیصلہ کر دیا جس میں ان کی سیاسی بلوغت، سیاسی بصارت اور دور اندیشی جھلکتی ہے۔ عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ طاہرالقادری کے لانگ مارچ سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھیں گے اور ملک میں آنے والے انتخابات کا انعقاد اپنے وقت پہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
میرے تجزیے کے مطابق اس فیصلے سے عمران خان نے اپنی سیاسی صف بندی کو انتہائی واضح کر دیا ہے۔
صف بندی سے مراد یہ کہ ایک جانب جمہوری سیاسی قوتیں ہیں، جو سیاسی عمل اور انتخابات پہ یقین رکھتے ہیں۔ کرپشن یا بیڈ گورننس اس کا ایک اضافی پہلو ہے۔ جبکہ دوسری جانب غیرجمہوری قوتیں ہیں جو ملک میں ہر کچھ عرصے بعد میرے عزیز ہم وطنو، شوکت عزیزوں، معین قریشیوں کی آمد کا موجب بنتی ہیں۔ جن لوگوں کو اپنا مستقبل ووٹ کے ذریعےنظر نہیں آتا، وہ اس صف بندی کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
صف بندی سے مراد یہ کہ ایک جانب جمہوری سیاسی قوتیں ہیں، جو سیاسی عمل اور انتخابات پہ یقین رکھتے ہیں۔ کرپشن یا بیڈ گورننس اس کا ایک اضافی پہلو ہے۔ جبکہ دوسری جانب غیرجمہوری قوتیں ہیں جو ملک میں ہر کچھ عرصے بعد میرے عزیز ہم وطنو، شوکت عزیزوں، معین قریشیوں کی آمد کا موجب بنتی ہیں۔ جن لوگوں کو اپنا مستقبل ووٹ کے ذریعےنظر نہیں آتا، وہ اس صف بندی کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی خاندانی قسم کی حلقہ در حلقہ سیاست کا ڈھانچہ ہی کچھ ایسا ہے کہ عمران خان کا بھی ووٹ کے ذریعے پاکستان کی سیاست میں کوئی خاص مستقبل نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا جمہوری اور انتخابی نظام پہ اظہارِ اعتماد ایک اچھی پیش رفت ہے۔
عمران خان کے اس فیصلے کی بہت زیادہ اہمیت اس لئے ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ امپورٹڈ بہروپئے کے لانگ مارچ کے جاری رہتے ہوئے اگر عمران خان اپنی سٹریٹ پاور کے ساتھ کمک لے کے کود پڑتا تو موجودہ نظام کے زمیں بوس ہونے سے بچنے کے بہت کم امکانات رہ جانے تھے۔ غیرجمہوری قوتیں اسی لئے عمران خان پہ تکیہ کئے بیٹھی تھیں، جن کو یقیناً کافی مایوسی ہوئی ہو گی۔
عمران خان کا سیاسی اور جمہوری عمل کے جاری رہنے پہ اتفاق ان کا ایک اچھا اور اہم فیصلہ ہے، جس کے بعد مہم جو قوتوں کے عزائم کو کافی دھچکا پہنچا ہو گا۔
ویل ڈن عمران خان! آپ نے ایک شاندار چھکا مارا ہے۔
بالکل جناب اسکے بعد تو میں بھی عمران خان کو کچھ کچھ میچور سمجھنے لگا ہوں۔۔ یہ خان صاحب کی کم و بیش ڈیڑھ دہائی پہ مشتمل سیاست کا شاید پہلا اچھا اور بروقت فیصلہ ہے۔۔ صرف ایک بات کھٹک رہی ہے۔۔ بڑے صاحب کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںفرنٹ پہ ہونے والی دوسری اہم ترین پیش رفت ایک سابق ایڈمرل کا سپریم کورٹ میں سیاست دان کا دفاع ہے۔۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے فل الحال زرداری نواز اتحاد اور عمران خان کی باوٗنڈری نے اسٹیبلشمنٹ کو بالکل ہی بیک فٹ پہ بھیج دیا ہے۔ یہ بات بجا کہ فصیح بخاری جرنیل نہیں رہے اور سب سے نمانی یونیفارمڈ فورس کی کمان کرتے رہے ہیں مگر وہ سٹل ایک کمانڈر رہے ہیں۔۔ اور انکا یوں بیچ میں کودنا ایک خوش آئیند بات ہو سکتی ہے۔ ورنہ چند ماہ پیشتر اصغر خان کیس میں بیگ صاحب کا نام آتے ہی تھرتھلی مچنا شاید سب کو یاد ہو۔ ۔۔ مجھے تو امید ہو رہی ہے شاید کبھی پرویز مشرف ورسز گوورنمنٹ آف پاکستان قسم کی صدا بھی احاطہ عدالت میں بلند ہو ہی جائے۔۔
جناب میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
جواب دیںحذف کریںدھرنے کی خواہش عمران خان میں شدید نوعیت کی ہے ۔ یہ آئیڈیا عمران خان کو بہت بھایا ۔ اس دھرنے میں شرکت نا کرنے کی وجہ صرف اور صرف ون مین شو کا نا ہوپانا ہی ہوسکتا ہے۔ اس دھرنے کے سیاسی اثرات اور اس قسم کے دھرنوں سے قائم عوامی توقعات اور سیاسی فوائد کو عمران خان بخوبی محسوس کر رہے ہیں۔ اور اسی لیے انہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ متوقع دھاندلی یا کسی بھی قسم کے فاؤل پلے کے خلاف دھرنا دیں گے۔
سیاسی بلوغت ابھی تک عمران خان سے دور ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تنظیمی معاملات خاص طور پر پرانے اور مخلص کارکنوں کے شکوے دور کرنے، تنظیم سازی اور کارکن سازی میں ناکام نظر آتے ہیں۔ انکی سیاسی اپروچ میں جلد بازی کا عنصر غالب ہے جسکی وجہ سے سیاسی متانت سے کچھ کچھ محروم نظر آتے ہیں۔
ویسے اگر تحریکِ انصاف کلین سویپ کرتی ہے۔ یا جیتتی بھی ہے تو تو، مجھے جاوید ہاشمی اسی تنخواہ پہ کام کرتے لگ رہے ہیں جس تنخواہ پہ ن لیگ میں تھے۔ شاید قائدِ ایوانِ بالا بن جائیں۔ میری نظر میں یہ کوئی ایسی انکریمنٹ نہیں ہے جس کی خاطر کمپنی بدلی جائی۔
جواب دیںحذف کریںکیا خیالات ہیں آپ لوگوں کے؟۔
فریدون
درست تجزیہ کیا فریدون بھائی۔ اصلی تے وڈی جماعتوں کی صف بندی کافی سے زیادہ واضح ہو چکی ہے۔ اور گزشتہ پانچ سال میں اسٹیبلشمنٹ کو بیک فٹ پہ رکھا جانا کامیابی ہے۔
جواب دیںحذف کریںرہی بڑے صاحب والی بات تو اس کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ اب خان صاحب کو اپنے پیچھے عوام نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، اور یہی خوش آئند بات ہے کہ ان کو اندازہ ہوا ہے کہ ان کی اصل قوت عوام الناس ہے، نہ کہ پاشا صاب اینڈ ہمنوا۔
جواد بھائی! ایک آدھ دن پہلے تک میں بھی عمران خان کے بارے میں ہو بہو یہی خیالات رکھتا تھا، تاہم دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کچھ بہتر لگا ہے۔ شاید اس کو سیاسی بلوغت کے ابتدائی اقدامات میں سے قرار دیا جا سکے۔
جواب دیںحذف کریں