جمعہ، 8 مارچ، 2013

کرائے کی ترقی اور سہانے خواب

ویسے تو جب سے پاکستان بنا ہے، سہانے خوابوں نے ہماری قوم کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ہر کوئی ایسے ایسے خواب دیکھے جا رہا ہے کہ جیسے اگلے چند سالوں میں کراچی اور لاہور ترقی میں نیو یارک اور شکاگو کو پیچھے چھوڑنے والے ہیں، کوئی دن آتا ہے کہ امریکہ و یورپ ہمارے سامنے ہاتھ پھیلا کے امداد کی دہائی دینے والے ہوں گے۔

خواب دیکھنا اچھی بات ہے، لیکں صرف خواب دیکھنا بہت بری بات ہے۔
کیسی مضحکہ خیز بات ہے خواب دیکھنا دبئی، نیویارک بننے کے
اور ووٹ ڈالنا جمشید دستیوں، منظور وٹوؤں اور آصف زرداریوں کو۔

خیر بات کچھ دوسری جانب نکل گئی۔ قصہ یوں ہے کہ ان دنوں ہم سب من حیث القوم ایک بار پھر سہانے خواب میں مبتلا ہوئے جا رہے ہیں۔ اور وہ خواب ہے جی گوادر کے دبئی بن جانے کا۔ چند ہفتے قبل ہی گوادر پورٹ چین کو ایسے دے دی گئی ہے جیسے گاڑی رینٹ پہ دی جاتی ہو۔ اور اب انتظار اس چیز کا ہونے لگا ہے کہ ایک رات سوئیں گے تو موجودہ گوادر کے ساتھ، لیکن صبح اٹھیں گے تو گوادر کی بجائے دبئی مافک شہر کھڑا ہو گا۔

ایسا شاندار نسخہ ترقی کا۔ نجانے کیوں کسی اور کو اس کا خیال ہی نہیں آیا۔ ملک کو رینٹ آؤٹ کرتے چین کے پاس اور خود ہاتھ پیر توڑ کے بیٹھ جاتے۔ چند سال بعد ملک کی جگہ ہانگ کانگ کھڑا ہو جاتا۔

دوستو! عزیزو! پیارو! مجھے بتاؤ کہ کیا ترقی ایسی ہی آسان ہے۔ ووٹ دینے کی باری آئے تو ہر گھر سے بھٹو نکال دکھائیں، قبر میں بھی زندہ رکھیں اور خواب دبئی نیویارک بننے کے۔
قانون کی حکمرانی کی یہ حالت کہ شاہراہ فیصل جیسی سڑکوں پہ بھری ٹریفک میں پستولوں کی نوک پہ ڈکیتیاں اور کوئی پکڑ نہ دھکڑ۔ کیمروں کے سامنے گولیاں چلاتے، ڈکیتیاں کرتے لوگ اور کسی کو احساسِ جرم بھی نہیں۔ کسی کے ضمیر پہ کچھ بوجھ بھی نہیں۔ وزیرِ اعظموں تک کے مرنے پہ یہاں نہ انکوائری نہ سزا، نہ جزا، لیکن نہ ووٹ دینے والے کو شرم نہ ووٹ لینے والے کو۔

کیا کسی کو احساس نہیں کہ 
وہ کیا ہے جس کی کمی کی وجہ سے ہمارے ہاں ترقی نہیں ہوتی۔ 
وہ کیا ہے جو میں اور آپ کر سکتے ہیں، لیکن کرتے نہیں۔

یاد رکھو بھائی! ترقی انسانی معاشرے میں ہوسکتی ہے، جنگل میں نہیں۔

منظر چمنستاں کے، زیبا ہوں کہ نازیبا
محرومِ عمل نرگس مجبورِ تماشا ہے
 

3 تبصرے:

  1. very well written sir g.... kal bazar mein eik banda issi gawader k dubai bannay wali baat pe sharat badhnay ko tayar tha.. wo log ye sochna bhi gawara nahin kar saktay k running depends upon ability and then on gear, defiantly not on crutches, in fact crutches are much of an obstacle. Problem is we don't want to change change and wait for miracles. I could not believe my eyes when I visited few schools last year after almost a decade. I think we had better of it. I daresay you havn't seen worst yet. just for 5 years and then see the end product of educational changes in market( if there is any by then).Our generation struggled because we knew there was something wrong. very very wrong. And now people are just fine with whatever they are getting..Everybody seems to believe education is just a way to communicate. I went mad upon hearing by a teacher that my niece was just doing very well and he was sure to see her as a young doctor in near future. I was told since we could afford 4-5 million, first division or 60% in FSc .was only thing she needed to be a doctor. According to him after-all MBBS is MBBS.....

    You know what I have given up hope. At least our next generation wont see anything improving... Sorry to say but we are a nation of half-wits.

    جواب دیںحذف کریں
  2. بجا فرمایا فریدون جی۔
    پرائز بانڈ خریدے بغیر پرائز بانڈ نکلنے کی امید رکھنا حماقت ہی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت دنوں کے بعد آپ کے بلاگ کو فعال دیکھا تو بھاگی چلی آئی۔کیسے ہیں یازغل بھائی آپ ،فریدون کو دیکھکر بھی بہت خوشی ہوئی ۔ اللہ آپ لوگوں کو خوش رکھے ۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر