بدھ، 2 جولائی، 2014

فال آف جائنٹس از کین فولیٹ

انگلش مصنف کین فولیٹ کا لکھا ناول فال آف جائنٹس دراصل تین ناولز پر مبنی سلسلے کا پہلا ناول ہے۔ اس سلسلے کو سنچری ٹرائیلوجی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ 
پہلے آئی آف دی نیڈل اور اب فال آف جائنٹس پڑھنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جب تاریخی فکشن اور خصوصا" یورپی تاریخ سے متعلق فکشن کی بات ہو تو کین فولیٹ کا کوئی مقابل نہیں۔

آئی آف دی نیڈل کے بعد میں نے کین فولیٹ کے دو مزید ناولز بھی پڑھے تھے۔ وائٹ آؤٹ اور دی تھرڈ ٹوئن۔ دونوں ہی تھرل جینرے کے تھے اور کافی اچھی رینٹنگ وغیرہ کے حامل تھے، لیکن مجھے کافی ایوریج سے لگے۔ خصوصا" جب ان کا مقابلہ یا موازنہ آئی آف دی نیڈل اور فال آف جائنٹس جیسے معرکۃ الآرا ناولز سے کیا جائے۔
سنچری ٹرائیلوجی میں کین فولیٹ نے کچھ افسانوی اور بہت سے حقیقی کرداروں کی مدد سے ماضی قریب کے چند عظیم ترین واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے ناولائزیشن کی ہے۔ پہلے حصے یعنی فال آف جائنٹس میں پہلی جنگِ عظیم اور کمیونسٹ انقلاب مرکزی واقعات ہیں۔ جبکہ دوسرے حصے میں نازی فاشسٹ تحریک اور دوسری جنگِ عظیم کا احاطہ کیا گیا ہے۔

فال آف جائنٹس میں پانچ خاندانوں میں کہانی ہے جن میں سے ایک روس، ایک امریکہ، ایک جرمنی اور دو  انگلینڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناول کے پلاٹ میں انیس سو گیارہ سے انیس سو چوبیس تک کے عرصے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کہانی کے مطابق ان پانچ خاندانوں کے مختلف کرداروں کا ایک دوسرے سے سیاسی یا رومانوی تعلق قائم ہوتا ہے جبکہ اسی دوران روس میں بالشویک انقلاب اور باقی یورپ میں جنگ کی تیاری کا ماحول ہوتا ہے۔ اسی دوران دیگر بے شمار واقعات ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کہانی کافی سنسنی خیز ہو جاتی ہے۔ ناول میں رومان، سیکس، سیاست، عالمی سیاسی کشمکش، جنگی محاذوں کا احوال، مزدوروں اور خواتین کی تحریکوں سمیت بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ ڈین براؤن کے ناولز کی طرح اس میں بھی حقیقت اور افسانے کا امتزاج ہے اور کہاں حقیقت ختم ہوئی اور کہاں افسانہ شروع ہوا، یہ علم نہیں ہو پاتا۔ لیکن مصنف نے ناول کے آخر میں دعویٰ کیا ہے کہ تمام اہم اور بڑے واقعات حقیقت پر مبنی ہیں۔ جن قارئین نے ڈین براؤن کے ناولز پڑھے ہیں، ان کو یاد ہو گا کہ ایسا ہی دعوٰی ڈین براؤن صاحب اپنے ناولز کے آغاز میں ہی کر دیتے ہیں۔

ویسے یہ کافی طویل ناول ہے اور ایک ہزار سے اوپر صفحات پر مشتمل اس کی کہانی کی تلخیص یہاں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔  جو احباب صرف تھرل کے لئے ناول پڑھنا چاہتے ہوں، ان کے لئے یہ ناول بالکل بھی ریکمنڈڈ نہیں ہے، لیکن جو لوگ پہلی جنگِ عظیم، روسی انقلاب اور اس زمانے میں برطانیہ، جرمنی، امریکہ وغیرہ کے عوام و خواص کے رہن سہن اور ان کی مشکلات، طبقاتی تفریق وغیرہ کے بارے میں آگاہی جاننا چاہتے ہوں، ان کو یہ ناول ضرور پڑھنا چاہئے۔

اس میں پتا چلتا ہے کہ انقلاب سے پہلے زارِ روس کے دور میں روسی لوگوں کی حالتِ زار کیسی تھی۔ ساتھ ہی انقلاب کے ابتدائی چند سالوں پہ محیط عرصے میں یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انقلاب کے بعد بھی حالات میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔

اسی طرح پہلی جنگِ عظیم کے بارے میں بہت سے تاریخی حقائق سے بھی جانکاری ملتی ہے۔ جیسے مجھے پہلی دفعہ صحیح طور سے یہ بات سمجھ آئی کہ آسٹریا کے ایک شہزادے کے بوسنیا میں قتل سے کیسے پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہو گیا۔

اسی طرح جرمنی اور فرانس کی جنگ کا بہت تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے، جبکہ امریکہ کے اس جنگ میں کود پڑنے کی وجوہات کا بھی علم ہوتا ہے۔

اسی عرصے کے دوران برطانیہ میں خواتین کی اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کا بھی احوال مذکور ہے۔ خواتین کے چیدہ مطالبات میں ووٹ کا حق اور مردوں کے مساوی تنخواہ وغیرہ شامل تھے۔

ایک اور چیز کا ذکر کرتا چلوں کہ چونکہ یہ ایک ناول ہے، نہ کہ پہلی جنگِ عظیم کے بارے میں تفصیلی کتاب۔ تو اس لئے اس میں پہلی جنگِ عظیم کے کچھ اہم واقعات یا جنگوں کا سرے سے کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ، جس کو ہمارے ہاں خلافتِ عثمانیہ بھی کہا جاتا ہے پہلی جنگِ عظیم کا ایک اہم کردار تھی اور گیلی پولی میں ان کی برطانیہ کے ساتھ جنگ ایک اہم ترین واقعہ تھا، تاہم اس کا ناول میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

اس ناول کے فورا" بعد میں نے اس کا دوسرا حصہ "ونٹر آف دی ورلڈ" بھی شروع کردیا ہے۔ ابھی تک تیسرا حصہ پبلش نہیں ہوا۔ وکی پیڈیا کے مطابق تیسرا حصہ اسی سال پبلش ہو جائے گا۔

ابھی تک جتنا بھی پڑھا ہے، ونٹر آف دی ورلڈ اس سے بھی زیادہ سنسنی خیز اور دلچسپ محسوس ہو رہا ہے۔ انشاءاللہ جلد ہی اس کو بھی مکمل کر کے اس کا احوال لکھوں گا۔

1 تبصرہ:

  1. بہت دلچسپ تبصرہ لکھا ہے ۔ ۔ ۔ جنگِ عظیم کو بہت سے لوگ قصہء پارینہ سمجھتے ہیں لیکن اس کی کڑیاں آج کے حلات سے آملتی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر