ایم کیو ایم اور ان کی طلاقِ رجعی پر مبنی سیاست کے بارے میں کافی پہلے بھی کچھ لکھا تھا۔ تازہ ترین پیش رفت کے طور پہ ایم کیو ایم نے ایک بار پھر پی پی پی کی سندھ حکومت سے سیاسی طلاق کا اعلان کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب کے یہ حتمی طلاق ہے یا ایک بار پھر طلاقِ رجعی ہی وقوع پذیر ہونے جا رہی ہے۔
بظاہر تو لگتا ہے کہ اب کے حالات اور سابقہ چار پانچ طلاقِ رجعی والے حالات میں کافی فرق ہے۔ اب ملک کے مجموعی سیاسی حالات بھی کافی مختلف منظر پیش کر رہے ہیں اور انقلابوں اور تبدیلیوں کا دور دورہ ہے۔ اس لئے اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس دفعہ ایم کیو ایم مستقل بنیادوں پہ پی پی پی سے الگ ہو جائے۔ اس بابت بعض تجزیہ نگاروں کی یہ پیشنگوئی بھی قرین قیاس ہو سکتی ہے کہ دھرنا والی جماعتوں یعنی پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کو ایم کیو ایم کی شکل میں ایک اور حلیف ملنے والا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ اسی طور کی سابقہ چپقلشوں کا جائزہ لیا جائے تو اب بھی اہمیت اس چیز کی ہو گی کہ رحمان ملک کب الطاف حسین سے لندن میں جا کے ملتا ہے اور جیسے کہانیوں میں کسی جن کی جان طوطے میں ہوتی ہے تو ایم کیو ایم کے قائد کی سلامتی والے دو طوطوں کا ذکر کر کے اس سے طلاقِ غیر رجعی کو طلاقِ رجعی میں تبدیل کرنے کا کہتا ہے۔ اسی معاملے میں کچھ ایجنسیوں (جن کو شاید اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے) کی دلچسپی کو بھی دیکھنا ہو گا۔
میرے تجزیے کے مطابق ایم کیو ایم کے سابقہ تنخواہ پر لوٹ آنے کے امکانات اب بھی باقی ہیں۔ اس بات کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ایم کیو ایم کو اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ڈیڑھ عشرہ سے زائد ہو چکا ہے اور اس وقت سے لے کر اب تک اس نے ہر طرح کے حالات میں حکومت کو ایک ڈیڑھ ہفتے سے زیادہ کے لئے نہیں چھوڑا۔ اور جب بھی حکومت چھوڑی تو بھی گورنر سندھ نے ساتھ استعفٰی نہیں دیا۔
خیر یہ تو تھا تجزیہ۔ امید ہے کہ اگلے کچھ دن میں منظرنامہ مزید کھل کے واضح ہو جائے گا۔
بظاہر تو لگتا ہے کہ اب کے حالات اور سابقہ چار پانچ طلاقِ رجعی والے حالات میں کافی فرق ہے۔ اب ملک کے مجموعی سیاسی حالات بھی کافی مختلف منظر پیش کر رہے ہیں اور انقلابوں اور تبدیلیوں کا دور دورہ ہے۔ اس لئے اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس دفعہ ایم کیو ایم مستقل بنیادوں پہ پی پی پی سے الگ ہو جائے۔ اس بابت بعض تجزیہ نگاروں کی یہ پیشنگوئی بھی قرین قیاس ہو سکتی ہے کہ دھرنا والی جماعتوں یعنی پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کو ایم کیو ایم کی شکل میں ایک اور حلیف ملنے والا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ اسی طور کی سابقہ چپقلشوں کا جائزہ لیا جائے تو اب بھی اہمیت اس چیز کی ہو گی کہ رحمان ملک کب الطاف حسین سے لندن میں جا کے ملتا ہے اور جیسے کہانیوں میں کسی جن کی جان طوطے میں ہوتی ہے تو ایم کیو ایم کے قائد کی سلامتی والے دو طوطوں کا ذکر کر کے اس سے طلاقِ غیر رجعی کو طلاقِ رجعی میں تبدیل کرنے کا کہتا ہے۔ اسی معاملے میں کچھ ایجنسیوں (جن کو شاید اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے) کی دلچسپی کو بھی دیکھنا ہو گا۔
میرے تجزیے کے مطابق ایم کیو ایم کے سابقہ تنخواہ پر لوٹ آنے کے امکانات اب بھی باقی ہیں۔ اس بات کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ایم کیو ایم کو اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ڈیڑھ عشرہ سے زائد ہو چکا ہے اور اس وقت سے لے کر اب تک اس نے ہر طرح کے حالات میں حکومت کو ایک ڈیڑھ ہفتے سے زیادہ کے لئے نہیں چھوڑا۔ اور جب بھی حکومت چھوڑی تو بھی گورنر سندھ نے ساتھ استعفٰی نہیں دیا۔
خیر یہ تو تھا تجزیہ۔ امید ہے کہ اگلے کچھ دن میں منظرنامہ مزید کھل کے واضح ہو جائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر