جمعرات، 19 اپریل، 2012

بابائے کے ایف سی ۔ کرنل ہارلینڈ سینڈرز

تقریباً ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ترقّی کرے اور نام بنائے۔ زندگی کچھ انسانوں کو اس کے مواقع دیتی ہے۔ کچھ لوگ ان مواقع سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں، کچھ اس میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ لیکن انسانوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کہ مواقع کی تلاش یا انتظار میں نہیں رہتے بلکہ خود سے اپنے لئے مواقع پیدا کر لیتے ہیں۔ کرنل ہارلینڈ سینڈرز بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔
تقریباً سب نے ہی 'کے ایف سی' کے سائن بورڈز یا اس کے لوگوز پر بنی ایک بوڑھے شخص کی تصویر دیکھی ہو گی۔
یہی کرنل ہارلینڈ سینڈرز ہیں جنہوں نے تنِ تنہا، مشکل ترین حالات میں کینٹکی فرائیڈ چکن کی بنیاد رکھی جو کہ آگے چل کر دنیا بھر میں فوڈ سٹینڈرڈز کی پہچان کے طور پہ اُبھری۔
ہارلینڈ سینڈرز 9 ستمبر 1890 میں امریکی ریاست انڈیانا کے قصبے ہنری وِلے میں پیدا ہوا۔ ابھی اس کی عمر پانچ سال ہی تھی کہ اس کے والد ولبر ڈیوڈ کی وفات ہو گئی۔ اس کی ماں نے اپنا اور اس کا پیٹ پالنے کے لئے ملازمت جاری رکھی۔ جب اس کی ماں جاب پہ ہوتی تھی تو تبھی اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی اس کو اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کا پیٹ بھرنے کے لئے چھوٹی موٹی ککنگ کرنا پڑتی تھی۔ عدم توجہی کی وجہ سے وہ پڑھائی میں بھی ایسا کمزور نکلا کہ ساتویں گریڈ کے دوران ہی اس کو سکول سے بھی نکال دیا گیا۔ جب اس کی ماں نے دوسری شادی کی تو ہارلینڈ سینڈرز کو اکثر اپنے سوتیلے باپ کی مار پیٹ کا نشانہ بننا پڑتا۔ ابھی ہارلینڈ کی عمر 10 سال کے لگ بھگ ہی تھی کہ سوتیلے باپ کی مارپیٹ سے تنگ آ کر وہ گھر سے بھاگ نکلا۔ اس کے بعد کا دور ہارلینڈ سینڈرز کے لئے در بدری کا دور تھا۔ دنیا اس وقت معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہی تھی۔ ہارلینڈ نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بے شمار معمولی ملازمتیں کیں۔ جن میں بس کنڈکٹر، ریلوے انجن میں کوئلہ ڈالنے، انشورنس سیلزمین، کسان وغیرہ شامل ہیں۔ اسی دوران وہ صرف 16 سال کی عمر میں اپنی عمر کے بارے میں غلط بیانی کر کے امریکی فوج میں بھی بھرتی ہوا اور کچھ وقت کیوبا میں گزارا۔ دربدری کا یہ عرصہ کافی طویل ثابت ہوا۔ تیس سال تک ہارلینڈ سینڈرز یونہی زندگی کے دن گزارتا رہا۔ 1930 میں جب کہ اس کی عمر 40 سال ہو چکی تھی، اس کو ایک سروس سٹیشن پہ کام کرنے کا موقع ملا۔ جیسے زندگی میں ہر شخص کو ایک آدھ موقع ملتا ہے، ہارلینڈ سینڈرز کے لئے یہی وہ موقع تھا جس کو اس نے کیش کیا اور یہی آگے چل کر ایک ایسے فاسٹ فوڈ برانڈ کی بنیاد بنا جو کہ روزانہ دنیا بھر کے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کا من بھاتا کھانا ہے۔
ریاست کینٹکی میں کوربن نامی قصبے میں موجود اس سروس سٹیشن پہ کام کرنے کے دوران ہی ہارلینڈ سینڈرز نے وہاں رکنے والے ڈرائیوروں کو اپنے ہاتھ سے پکائے کھانے کھلانے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ ابھی بھی بے سرو سامانی کا یہ عالم تھا کہ اس کے پاس گاہکوں کو کھانا کھلانے کے لئے اپنے معمولی سے کورٹر کی کھانے کی میز، جس پہ چھ افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی، کے علاوہ کچھ بھی فرنیچر نہ تھا۔ اس کے بنائے کھانوں کے معیار نے بہت سے گاہکوں کی توجہ اس کی جانب مبذول کرائی اور بہت سے کار ڈرائیور صرف اس کا کھانا کھانے کے لئے اس کے پاس رکنے لگے۔ لیکن اب یہ جگہ ہارلینڈ سینڈرز کو بہت کم پڑ رہی تھی۔ اس لئے اس نے ایک نزدیکی جگہ پہ سینڈرز کیفے کے نام سے موٹل اور ریسٹورنٹ کھول لیا اور وہاں اپنے گاہکوں کو اپنے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز کرنے لگا۔ یہاں اس کے پاس 142 افراد کو بٹھانے کی گنجائش تھی۔ اگرچہ کہ ہارلینڈ سینڈرز کئی قسم کے کھانے بناتا تھا، لیکن اسی ریسٹورنٹ میں اس نے نوٹ کیا کہ مینیو میں سب سے زیادہ توجہ والی ڈش سینڈرز فرائیڈ چکن ہی تھی۔ اس کی یہ ڈش خالصتاً اس کی اپنی تحقیق پہ مبنی تھی اور یہ گیارہ مصالحوں یا جڑی بوٹیوں کو ملانے سے بنتی تھی جو کہ بقول اس کے ہر گھر کے کچن میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ڈش کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں چکن کو پکانے کے لئے سینڈرز پریشر کوکر کا استعمال کرتا تھا جس سے چکن زیادہ بہتر گلتا تھا۔
چونکہ سینڈرز کیفے ایک بڑی ہائی وے کے اوپر واقع تھا، اس لئے سینڈرز کیفے کا کاروبار خوب چلتا تھا۔ اسی دوران ریاست کینٹکی کے گورنر نے ہارلینڈ سینڈرز کو کینٹکی کرنل کا خطاب بھی دیا۔ یہ خطاب ایسے لوگوں کو دیا جاتا تھا جو کہ اس ریاست کی شہرت میں اضافے کا باعث بنتے ہوں اور سینڈرز کو اس کا اہل اس لئے ٹھہرایا گیا کہ اس نے کینٹکی کے کھانوں کو اردگرد کی ریاستوں تک بھی مشہور کر دیا تھا۔
ابھی تک کرنل ہارلینڈ سینڈرز کا کاروبار ایک ہی ریسٹورنٹ تک محدود تھا کہ ایک نئی ہائی وے انٹرسٹیٹ 75 کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ یہ ہائی وے بھی شمالی علاقوں کو جنوب سے ملانے والی ٹریفک کے لئے تھی۔ اس سے زیادہ ٹریفک اس ہائی وے پہ شفٹ ہو گئی اور ہارلینڈ سینڈرز کا کاروبار متاثر ہوا۔ لیکن اسی مسئلے سے کے ایف سی کی فرنچائزیشن کا آغاز ہوا۔ جیسے ہی ہارلینڈ سینڈرز کو محسوس ہوا کہ اس کا سینڈرز کیفے اپنی تمام تر کوالٹی اور مقبولیت کے باوجود اب ویسا نہیں چل سکے گا تو اس نے اس ریسٹورنٹ کو بیچ دیا اور اپنے بنائے کھانوں خصوصاً سینڈرز فرائیڈ چکن کی تراکیب کو کینٹکی فرائڈ چکن کے نام سے فرنچائز کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت سینڈرز کی عمر 62 سال ہو چکی تھی۔ لیکن اس عمر میں بھی اس نے امریکہ اور کینیڈا کے لاتعداد علاقوں کا سفر کیا اور بے شمار جگہوں پہ کینٹکی فرائڈ چکن کے فرنچائز حقوق فروخت کرنے کے معاہدے کئے۔ 74 سال کی عمر تک امریکہ اور کینیڈا میں کے ایف سی کے فرنچائزز کی تعداد چھ سو سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اسی سال ہارلینڈ سینڈرز نے کے ایف سی امریکہ کے حقوق بیس لاکھ ڈالر میں فروخت کر دیئے۔ تاہم ابھی تک کینیڈا والی فرنچائزز کے حقوق کرنل سینڈرز کے پاس ہی رہے اور وہ اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے کینیڈا بھی شفٹ ہوا۔ تاہم اس کے بعد بھی اس نے کے ایف سی کے برانڈ کو پروموٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کے ایف سی کی مختلف آؤٹ لیٹس پہ چکر لگا کر لوگوں سے ملتا رہا۔ کے ایف سی کے حوالے سے اس کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ مختلف کے ایف سی آؤٹ لیٹس اس کو فیس ادا کر کے اپنی پبلسٹی کے لئے بلواتے رہے۔ ایک اندازے کے مطابق اپنی وفات تک کرنل سینڈرز کے ایف سی کی مارکیٹ پبلسٹی کے لئے ہر سال اڑھائی لاکھ کلومیٹر سے زیادہ سفر کرتا تھا۔
کرنل سینڈرز نے 16 دسمبر 1980 کو کینٹکی کے شہر لوئزولے میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوا۔ تدفین کے وقت بھی اس کو اس کے مشہور لباس یعنی سفید شرٹ، کالی نیکٹائی پہنا کے دفن کیا گیا۔ اس کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹا اس کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔
کے ایف سی کمپنی اس کے بعد دو تین مختلف گروپس کو فروخت ہوئی جن میں پیپسی کارپوریشن بھی شامل ہے، لیکن کرنل ہارلینڈ سینڈرز کی تصویر کے ایف سی کے مونوگرام کا ابتدا سے ہی حصہ رہی اور ابھی تک ہے۔

ماخذ: وکی پیڈیا اور چند دیگر ویب سائٹ کے مواد سے ماخوذ

2 تبصرے:

  1. محنت انسان کو بلندیوں تک لے جاتی ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. غیرمعمولی محنت اور اپنے کام سے جنون انسان سے اس طرح کے کارنامے کرواتا ہے۔بہترین شیئرنگ

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر