برطانوی ناول نگار کین فولیٹ کا لکھا یہ ناول ابتدا میں "سٹارم آئے لینڈ" کے نام سے بھی چھپا تھا۔ تھرلر ناولز پڑھنے کے شوقین لوگوں کے لئے یہ ایک توشۂ خاص ہے۔ میں اگر اپنی بات کروں تو جتنا لطف اس ناول کو پڑھنے میں آیا، اتنا کم کم ہی کسی ناول میں آیا ہو گا۔
یہ ناول دوسری جنگِ عظیم کے دوران انگلینڈ میں موجود ایک جرمن جاسوس کی کہانی کا بیان ہے۔
اپنے پتلے جسم اور لمبے قد کی وجہ سے اس کو نیڈل (یعنی سوئی) اور جرمن (یا شاید کسی اور زبان) میں ڈائے نیڈل بھی کہا جاتا تھا۔ اسی سے اس ناول کا اصل نام یعنی آئی آف دی نیڈل بھی رکھا گیا۔
اپنے پتلے جسم اور لمبے قد کی وجہ سے اس کو نیڈل (یعنی سوئی) اور جرمن (یا شاید کسی اور زبان) میں ڈائے نیڈل بھی کہا جاتا تھا۔ اسی سے اس ناول کا اصل نام یعنی آئی آف دی نیڈل بھی رکھا گیا۔
ناول کی کہانی میں اصل پلاٹ کافی حد تک حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ بس اس میں جاسوس صاحب کی کارگزاری والا حصہ یقینا" افسانوی ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کی ابتدا میں جب جرمنی نے فرانس پہ قبضہ کر لیا تو جرمنی کی مخالف قوتوں میں سب سے اہم قوت برطانیہ ہی بچا تھا۔ اسی وقت سے برطانیہ نے ایک ایسا آپریشن پلان کرنا شروع کر دیا تھا جس میں ان کی افواج سمندر کو پار کر کے فرانس کے ساحلوں پہ قبضہ جمائیں۔ اور وہاں سے جرمنی کی فوج کی تباہی و بربادی کا آغاز کرتے ہوئے ان کو مکمل شکست دے سکیں۔ عام زبان میں اس کو لینڈنگ آپریشن کہا جاتا ہے۔ ہٹلر کو بھی اس بات کا شروع سے ادراک تھا کہ برطانیہ و اتحادیوں نے ایک دن یہاں لینڈنگ آپریشن کرنا ہی ہے۔
اب کیا یہ گیا کہ فرانس کے ساحل پہ لینڈنگ کے لئے جس مقام کا انتخاب کیا گیا، اس کا نام نارمنڈی تھا۔ جبکہ کالیس نامی جگہ (جہاں انگلش چینل سب سے تنگ ہے) کا صرف شوشا چھوڑا گیا کہ یہاں سے لینڈنگ کی جائے گی۔ اس کام کے لئے کالیس والی جگہ کے نزدیک بہت بڑے بڑے مصنوعی کیمپس بنائے گئے تا کہ جرمنی کے جہازوں وغیرہ سے جو جاسوسی کی جاتی تھی، ان کو دھوکا دیا جا سکے۔
ان دونوں لینڈنگ سائٹس میں اہم نکتہ یہ تھا کہ فرانس والی سائیڈ پہ دونوں جگہوں کے درمیان دریا تھا، اور جرمنی مشرقی محاذ پہ روس کے خلاف مصروفِ پیکار ہونے کی وجہ سے فوجی قوت کی کمی کا شکار تھا تو اس نے اصل دفاع کسی ایک ہی جگہ پہ لینا تھا۔ ہٹلر کو اپنی فہم و فراست کی بناء پہ اندازہ تھا کہ لینڈنگ نارمنڈی پہ ہو گی لیکن اس کے زیادہ تر جرنیلوں کا یہی اصرار تھا کہ اصل لینڈنگ سائٹ کالیس والی ہے۔ اس کا ثبوت جاسوس جہازوں کی تصویروں سے بھی پیش کیا گیا۔
ابھی تک کی جو کہانی بیان کی گئی ہے، یہ تاریخی طور پہ بھی ایسے ہی ہے۔ اب اس میں ناول کا پہلو یہاں سے آتا ہے کہ نیڈل نامی جاسوس مصنوعی کیمپس تک پہنچ کے وہاں سے تصویری ثبوت حاصل کر لیتا ہے کہ یہ سب دھوکا دہی کے لئے ہے اور یہ اصل لینڈنگ آپریشن والی سائٹ نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ ہی برطانوی انٹیلی جنس کے ایک آفیسر کو بھی علم ہو جاتا ہے کہ یہاں سے کچھ ثبوت حاصل کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد اس کا تمام تر مشن یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح ان معلومات کو جرمنی پہنچائے جانے سے روک سکے۔ اسی کے نتیجے میں تھرلنگ قسم کی جاسوسی کاروائیاں اور سراغ رسانی کے حالات و واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ انجام کیا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ناول پڑھنا مفید رہے گا۔
ناول کا اندازِ بیان ایسا سادہ اور پلاٹ ابتدا ہی سے ایسا دلچسپ ہے کہ بندہ ستر سال پرانے ماضی کے حالات میں مسحور ہو جاتا ہے اور پورا ناول جلد سے جلد پڑھے بغیر چین نہیں آتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ دوسری جنگِ عظیم کے حالات و واقعات کی (خصوصا" جرمنی کے مغربی محاذ کی) بھی کچھ سمجھ آتی ہے کہ کیسے یہاں لڑائی لڑی گئی اور کیسے اتحادی افواج نے جرمنی کو ہرانے کی پلاننگ کی۔
یہ ناول تمام جاسوسی یا تھرلر ناولز پڑھنے والوں کے لئے ریکمنڈڈ ہے۔
اردو ترجمہ دستیاب ہے؟
جواب دیںحذف کریںعمار بھائی! اس کا ترجمہ میرے علم میں نہیں ہے۔ لیکن ایسا ممکن ہے کہ کسی ڈائجسٹ وغیرہ میں اس کا ترجمہ حوالہ دیئے بغیر چھاپ دیا گیا ہو۔ جاسوسی ڈائجسٹ وغیرہ ایسے کاموں میں خاصے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ بعض اوقات کہانی کو اپنا ظاہر کرنے کے لئے اس میں ایک آدھ کیریکٹر مسلمان یا پاکستانی بھی ڈال دیا جاتا ہے، جس سے لگتا ہے کہ کہانی خود لکھی ہے۔
جواب دیںحذف کریںجواب کا شکریہ جناب۔ آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ میں نے گزشتہ دنوں کئی ایسی کہانیاں پڑھی ہیں جنھیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ غیر ملکی ادب سے درآمد کی گئی ہیں اور ذرا تلاش کرنے پر اصل کہانی مل بھی جاتی ہے لیکن اس رویے پر انتہائی کوفت ہوتی ہے کہ حوالہ کہیں درج نہیں ہوتا۔
حذف کریںزبردست لکھا
جواب دیںحذف کریںدوسری جنگِ عظیم تک لے جانے کا شکریہ