جمعہ، 23 مئی، 2014

زندہ ہیروز کی تلاش

چند ماہ قبل کی بات ہے۔ کسی ٹی وی چینل پہ کسی شاعر یا ادیب کو ایوارڈ دینے کی خبر چلی تو میرے ایک کزن کا پہلا سوال یہ تھا کہ ہائیں!!! کیا یہ بھی فوت ہو گیا ہے؟
اس ایک فقرے میں گویا ہمارے من حیث القوم مزاج اور رویوں کی داستان بیان کر دی گئی۔ میں بہت عرصے سے اس چیز کو دیکھ رہا ہوں کہ کسی بھی شاعر ادیب، فنکار یا ماہرِ فنونِ لطیفہ کے لئے ہیرو بننے (یا ایوارڈ پانے) کی سب سے بڑی کوالیفیکیشن
"وفات پا جانا" ہے۔ جونہی کوئی بندہ فوت ہوتا ہے تو اسی سال اس کے لئے ایوارڈ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس بابر اعوان، فرزانہ راجہ، شرمیلا فاروقی، عرفان صدیقی جیسے منحوس اور رذیل کرداروں کو زندہ ہی ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے جن کی تمام تر کوالیفیکیشن جوتیاں چاٹنا یا کرپشن میں ہمدم ہونا ہے۔

میں جب اہلِ مغرب سے اپنا موازنہ کرتا ہوں تو ایک اہم حقیقت سامنے آتی ہے کہ مغربی معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو زندہ ہیں یا زندہ تھے اور اپنی زنگی میں بھی ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ 
بھلے یہ سٹیو جابز ہو یا بل گیٹس، 
نوم چومسکی ہو یا آرٹ بکوالڈ، 
ہیریسن فورڈ ہو یا ٹام ہینکس، 
پاؤلو کوایلہو ہو یا گیبریل گارشیا مارکیز
جارج لوکاز ہو یا پیٹر جیکسن
مائیکل جیکسن ہو یا میڈونا
ڈین براؤن ہو سٹیفن کنگ
جے کے راؤلنگ ہو یا سٹیفنی مائیر
ڈیوڈ بیکہم ہو یا میراڈونا
نیلسن منڈیلا ہو یا کوفی عنان

یہ سب کے سب اپنی اپنی زندگیوں میں ہی اپنے معاشروں میں لوگوں کو ہیرو کے طور پہ قبول ہیں یا تھے۔ ان میں سے اکثر کا کوئی نہ کوئی سیکنڈل یا تنازعہ بھی سامنے آتا رہا ہو گا، لیکن ان کے معاشرے نے ان کو اس خرابی کے ساتھ بھی ہیرو کے طور پہ قبول کیا۔ وجہ یہ کہ یہ لوگ اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر ترین اور صاحبِ کمال بندے تھے۔

اسی کے برعکس ہمارے ہاں دیکھیں تو زندہ بندے میں جتنی مرضی خوبی ہو، اس کو متنازع بنانا یا اس کے منفی پہلوؤں پہ زیادہ سے زیادہ زور دینا کوئی ہم سے سیکھے
 کوئی سائنسدان ہے تو اس کو قادیانی و غیرمسلم، 
کوئی کھلاڑی ہے تو اس کو جواری و سٹے باز
کوئی فنکار ہو گلوگار ہے تو اس کو میراثی و کنجر
شاعر یا ادیب ہو تو ویسے ہی گمنام و انجان
کوئی غدار مشہور ہے توکوئی یہودی و نصرانی لابی کا آلۂ کار
کوئی آزاد خیال ہے تو کوئی زیادہ بولڈ
اور نجانے کیا کیا

اور تو اور، ایک ادارہ جس نے اس ملک کو ہیرو مہیا کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے یعنی پاک فوج، حیران کن طور پہ اس میں بھی آپ کو زندہ انسان ہیرو کے طور پہ سننے کو نہیں ملے گا۔ کتنی جنگیں اور آپریشنز ہو چکے، کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ایک بھی نام ایسا سامنے نہیں آیا جو زندہ ہو اور اس نے بھی کوئی "شجاعت و بہادری" کا مظاہرہ کیا ہو۔

دوستو! ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک معاشرہ ہیروز سے یکسر محروم ہو۔ یقینا" ہمارے آپ کے درمیان بھی ہیروز موجود ہوں گے، لیکن یا تو گمنامی اور بے توجہی کی زندگی گزار رہے ہوں گے، یا جن کو چند لوگوں نے جان لیا ہو گا، وہ ان کی ٹانگ کھینچنے یا منفی پہلو اجاگر کرنے میں زیادہ مصروف ہوں گے۔

عزیزانِ کرام! کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس سب رویے کی وجہ کیا ہے۔ جو میری سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ زندہ ہیروز سے ہم میں سے کچھ لوگ خوفزدہ ہوں گے اور کچھ جیلس۔
خوفزدہ اس وجہ سے کہ یہ ان سے زیادہ قدوقامت نہ پا لیں
جیلس اس وجہ سے کہ ہم ان جیسے کیوں نہ بن پائے۔

اللہ ہی جانے کہ کب ہم لوگ بھی سدھریں گے اور قبروں کو سلیوٹ کرنے کی بجائے زندہ انسانوں کو بھی سلیوٹ کرنا شروع کریں گے۔
اپنے گرد و پیش میں دیکھئے اور کھلے اذہان کے ساتھ زندہ ہیروز کی تلاش کیجئے۔ یقین جانئے کہ آپ کو مایوسی نہیں ہو گی۔

4 تبصرے:

  1. ہمارے ہاں ہر آدمی سمجھتا ہے کہ جیسا وہ ہے کوئی اور نہیں ۔ اسلئے دوسرے کی اچھائی برداشت نہیں ہوتی

    جواب دیںحذف کریں
  2. بالکل درست فرمایا افتخار اجمل بھائی۔
    یہی اصل بیماری ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمناممئی 25, 2014

    لو جی ابھی ٹی وی پہ ضیا محی الدین کو کوئی ایوارڈ دینے سے پہلے انکے کارنامے دکھائے جا رہے تھے تو میں لاؤنج سے گزرا۔۔۔ میرا ردِ عمل بھی ایسا ہی تھا۔۔@ یہ بھی لڑھک گئے؟۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. ہاہاہاہا۔ واقعی میں ایسا ہی ہوتا ہے جناب۔ میرے اپنے ساتھ کتنی بار ہو چکا تو۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہ آپ کا شکرگزار ہوں
آوارہ فکر